8 جنوری، 2023، 8:56 AM

"چارلی ہیبڈو" اور ایرانو فوبیا کا منصوبہ

"چارلی ہیبڈو" اور ایرانو فوبیا کا منصوبہ

اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آزادی اظہار میں ہولوکاسٹ کیوں شامل نہیں ہے اور توہین و تذلیل کا تعلق صرف مسلمانوں اور مذہب اسلام سے ہی کیوں ہے اور یہودیت اس اصول سے مستثنیٰ کیوں ہے۔؟

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

طنزیہ میگزین "چارلی ہیبڈو" جس نے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس مقام کی توہین کرکے اسلامو فوبیا کے منصوبے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی، اب اس نے آزادی اظہار کے نام پر رہبر معظم انقلاب، آیت اللہ خامنہ ای کی توہین کرکے ایرانو فوبیا کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے ایک کارروائی کی ہے۔ رہبر معظم انقلاب کی توہین کو ایجنڈے میں شامل کرنے کا مقصد سیاسی لابنگ اور سامراج مخالف نظریات کو نشانہ بنانا ہے۔ فرانسیسی مزاحیہ میگزین "چارلی ہیبڈو" کا نام ذہن میں آتے ہی "تذلیل"، "توہین" اور "ہتک عزت" جیسے تصورات ذہن میں آتے ہیں، جو آزادی اظہار کے نام پر لوگوں اور ان کے عقائد کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔

حال ہی میں، Charlie Hebdo نے انقلاب کے سپریم لیڈر کے لیے توہین آمیز کارٹون شائع کرنے کے مقصد سے ایک مقابلے کا انعقاد کیا۔ اس اشاعت پر بہت زیادہ تنقید کی گئی۔ مسلم کیمیونٹی کی طرف سے مغرب بالخصوص فرانس کی پالیسی کو اس حد تک تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے اس توہین آمیز اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فرانس کے سفیر نکولس روشے کو وزارت خارجہ طلب کیا ہے۔ دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمان ابھی تک چارلی ہیبڈو کی جانب سے 2015ء میں پیغمبر اسلام (ص)، قرآن پاک اور دین اسلام کی توہین کے واقعہ کو نہیں بھولے ہیں۔

جب چارلی ہیبڈو نے اسلام کے عظیم پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے مقدسات کے خلاف توہین آمیز کارٹون شائع کرنا شروع کیے تو آزادی اظہار کی دعویدار حکومتوں نے نہ صرف اس فرانسیسی میگزین کی مذمت نہ کی بلکہ اس کی حمایت بھی کی۔ ایک ایسا عمل جس نے ظاہر کر دیا کہ آزادی اظہار اور انسانی حقوق جیسے قیمتی تصورات یورپی اور مغربی حکومتوں کی غلط پالیسوں کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہیں اور عملی طور پر جب تک ان کی اپنی اقدار پر حملہ نہیں ہوتا، وہ یہ حربہ دوسرے مذاہب، قوموں اور ممالک کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ آزادی اظہار کے ہتھیار کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والی مغرب کی سوچ اور اس کے دوہرے معیار کا مقصد مسلمانوں اور عالم اسلام سے نفرت اور بیزاری پیدا کرنا نیز مغربی معاشرے مین اسلامو فوبیا کو بڑھا وا دینا ہے۔

یاد رہے کہ چارلی ہیبڈو کے اس گستاخانہ عمل کے نتیجے میں دو مسلح افراد کے ہاتھوں اس ادارے کے 12 ارکان ہلاک اور 10 زخمی ہوئے تھے۔ یقیناً اس کے بعد سے چارلی ہیبڈو نے عالمی شہرت حاصل کی اور اس کے کارٹونوں نے دنیا کے میڈیا اور رائے عامہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ بے شک شہرت حاصل کرنا بھی ہتک عزت اور الزامات کے ارتکاب کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ قانون کی کتاب میں ایک سنہری اصول ہے کہ "ایک شخص اس وقت تک آزاد ہے، جب تک کہ وہ دوسروں کی آزادی کو نقصان نہ پہنچائے"؛ جب حکومتوں اور تنظیموں میں چارلی ہیبڈو کے نمائندے کہتے ہیں کہ ان کی آزادی کی کوئی سرحد نہیں ہے، تو وہ مکمل طور پر صحیح دائرہ چھوڑ کر جرائم کے دائرے میں داخل ہوگئے ہیں اور یہ وہ وقت ہے، جب وہ خود کو دوسروں کے حقوق اور مقدسات کی خلاف ورزی کی اجازت دیتے ہیں۔

اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آزادی اظہار میں ہولوکاسٹ کیوں شامل نہیں ہے اور توہین و تذلیل کا تعلق صرف مسلمانوں اور مذہب اسلام سے ہی کیوں ہے اور یہودیت اس اصول سے مستثنیٰ کیوں ہے۔؟ 2009ء میں فرانسیسی میگزین Charlie Hebdo کے کارٹونسٹ Maurice Siné کو اس وقت اپنا استعفیٰ پیش کرنا پڑا، جب کارٹونسٹ نے فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی کے بیٹے جان سرکوزی کی ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والی یہودی لڑکی جیسیکا ڈارٹی کے ساتھ شادی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس نے پیسے کی ترغیب کی وجہ سے یہودیت اختیار کی تھی۔

موریس سائین کی تنقید یہودیت کے خلاف نہیں تھی اور اس نے کسی بھی طرح سے یہودی مذہب کی توہین نہیں کی تھی، لیکن صرف یہودیت کا حوالہ دینا ہی اس کے لیے کافی تھا، لیکن اس پر مذہب سے دشمنی کا الزام لگا کر اسے عدالتی حکام کے حوالے کرکے نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ اس وقت چارلی ہیبڈو میگزین نے اپنے ملازم کا دفاع نہیں کیا اور "آزادی اظہار" کے جھوٹ سے اپنے کام کو درست ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی۔

اس کے بعد اسی میگزین نے پیغمبر اسلام (ص) کے خلاف ایک توہین آمیز کارٹون شائع کیا، جس نے پوری دنیا کے مسلمانوں میں غصے کو بھڑکا دیا۔ اس میگزین نے "آزادی اظہار" کے بہانے توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت کو جائز قرار دیا۔ اس سلسلے میں خلاف ورزی کی سب سے واضح مثال معروف مصنف گاروژی کی ہے۔ 1998ء میں ایک فرانسیسی عدالت نے گاروژی کو ہولوکاسٹ سے انکار اور نسلی تہمت کا مجرم قرار دیا، اور 1995ء میں لکھی گئی ان کی کتاب "Myths of the Founders of Israeli Politics" کی وجہ سے انہیں چالیس ہزار ڈالر جرمانہ کیا۔

News ID 1914071

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha